The economic system of Western countries

مغربی  ممالک کا سرمایاداری نظام

مغرب مین رہکر ہم ے اس بات کا احساس ہوا کے کیسے ہم سرمایاداری کے غلام ہیں۔ دائمی سرمایاداری کیسے یک شھری کو جکڑتی ہے اور اسے اسکی کوئ خبر نہیں لگنے دیتی۔ اسکے لیۓ رو طریقے زیر استعمال میں لاۓ جاتے ہیں ایک آسانی سے  مَیسّر قرض اور دوسرا نقدی کا کم سے کم استعمال کرنا- آجکل کے زمانے میں آسان قرض کو کامیابی کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ یہ قرض ایک فرد کو ایسے باندھ دیتا ہے کے وو اسسے نکل ہی نہیں پاتا۔ اسسے چیزیں خریدنا اتنا آسان ہو جاتا ہے کے کب یے انسان کی عادت میں شمار ہو جاتا ہے اسکا اسےفھم نہیں ہو پاتا اور وو مزید اسمے پھستا چلا جاتا ہے- یاہاں پر دو ہفتہ وار یا ماہانہ قسط آتی ہے۔ گاڑی یا اور چھوٹے قرضمں کی قسط لوگ دو ہفتہ وار و بڑے قرض جیسے گھر وغیرہ کی قسط ماہانہ ادا کرنا پسند کرتے ہیں- جو خوشی انسان کو جلد اور آسان قرض فراہم ہونے سے ملتی ہے وو قسط چکاتے وقت سچّائ سے آشنا ہونے کے بعد غايب ہو جاتی ہے- دوسرا پہلو مغربی ممالک کا یے ہے کے آپ کو اگر نقد نکالنا ہے تو اضافی ہرزانا رینا پڑتا ہے لہازا انسان نقدی کے استعمال سے بچتا ہے۔ یے دونوں چیزیں سرمایاداری کو راس آتی ہیں کیونکہ اسسے لوگوں کو غیر اہم اشیاء خریدنے پر مجبور کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ خدمات اور سامان کی اس خریداری کی وجہ سے ان ممالک کی جی ڈی پی ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ لوگ کیا اور کیوں خرید رہے ہیں۔

آج کی دنیا میں سرمایہ داری اتنی مستقل ہے کہ وہ ہر اس چیز کا فیصلہ کرتی ہے جو کسی فرد کا ذاتی فیصلہ ہے جیسے کہ وہ کیا سوچتا ہے؟ ، چاہے وہ کمانے کے لیے کسی بڑے شهر یا بیرون ملک ہجرت کرے یا نہ کرے؟ ۔ وہ کیا پڑھے؟ وہ کس سے شادی کریں؟ ، کیا خریدیں اور کیا نہ خریدیں؟ ۔ آج کل ترقی تعداد سے ہوتی ہے چاہے معیار کتنا ہی گرا ہوا ہو لیکن تعداد زیادہ ہونی چاہیے۔

جب انسان کے چاروں طرف استہار موجود ہوں اور آسان قرض سرزد ہو تو وو غیر ضروری اشیاء بھی خرید لیتا ہے یہی سرمایاداری نظام کی سبسے بڑی طاقت اور ایک شهری کی سبسے بڑی کمزوری ہے۔ اگلے وقتوں میں جب ہم نقدی کا زیادہ استعمال کرتے تھے تو یہ احساس رہتا تھا کہ ہم ادائیگی کر رہے ہیں، کتنی ادائیگی کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے غیر اہم اشیاء پر ہونے والے اخراجات میں کمی آئی تھی۔ نقدی کا کم استعمال اور سیل فون کے ذریعے ہر چیز کی دستیابی۔ یہ دراصل فضول خرچی کو بڑھا رہا ہے اور سرمایہ داری پھیل رہی ہے۔

ہندوستان کی زیادہ آبادی یا تو غریب ہے یا درمیانے ​​طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ موبائل ان تک پہنچ چکا ہے اور بینکوں کی توجہ ہے کہ نقدی کا استعمال کم کیا جائے، جو مغربی ممالک میں ہو رہا ہے وہ ہندوستان میں بھی ہونے جا راہا ہے۔ اس کی وجہ سے اخراجات بڑھیں گے اور  ​درمیانا ​طبقہ جو ملک  کے لیۓ ادب، پڑھے لکھے، دانشور، محنتی پیدا کرتا ہے وہ بھی اگلے چند سالوں میں مالی نقطہ نظر سے کمزور ہو جائے گا  اور درحقیقت کمزور ہو بھی رہا ہے و غریب غریب تر ہوتا چلا جائے گا۔ جب کوئی غریب ہوتا ہے تو اس کی اولین ترجیح خوراک ہوتی ہے۔ وہ نہ تعلیم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ وہ بس سرمایادار اور سرکار کے رحم وکرم پر زندہ رہتا ہے۔

ڈیجیٹل ادائیگی کے فوائد موجود ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ٹیکنوکریٹس کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن کوئی بھی سماجی نقطہ نظر کو نظر انداز نہیں کر سکتا اور یہ کہ ہندوستانی معاشرہ دائمی سرمایہ داری سے کیسے متاثر ہو سکتا ہے۔ سائبر کرائم بہت زیادہ حقیقت ہے۔ لوگ ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ اے ٹی ایم کو استعمال کرنے کا طریقہ نہیں جانتے ہیں۔ کچھ لوگ ناخواندہ ہیں وہ دستخط نہیں کر سکتے۔ ایسے میں سبکوچھ آن لائن کرنا ناانصافی ہے۔ تعلیم کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہندوستان عالمی سرمایہ داروں کے لیے ایک بڑی منڈی ہے۔ وہ ہندوستانیوں کو بطور گرہک دیکھتے ہیں۔ 

خود کو ان ناپسندیدہ اخراجات سے بچانے کے لیے ہم انفرادی سطح پر بہت سی چیزیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ چیزیں نقد میں خریدیں۔ یہ بہت سے طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے، سب سے پہلے، ہم جانتے ہیں کہ ہم کتنی رقم ادا کر رہے ہیں (آن لائن خریداری میں بعض اوقات ہم زیادہ ادائیگی کرتے ہیں) کیونکہ نقد ہمارے ہاتھ سے نکلتا ہے، دوسری بات یہ کہ جب ہم دکان سے خریداری کرتے وقت زیادہ سودے بازی کرتے ہیں، اصل میں زیادہ خرچ کرنے پر اداسی کا احساس۔ مستقبل میں کم خرچ کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے، جبکہ آن لائن شاپن خریداری میں اس احساس کی کمی ہے۔ آخر میں جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری افراد پر منحصر ہے۔ چند بڑے تاجروں سے خریدنے کے بجائے، ان سے خریدنے کا مطلب دراصل ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

خرچ سرمایہ داری کی طاقت ہے اور وسائل کی بچت مضبوط معاشرے کی طاقت ہے۔ آپ کا انتخاب۔